مندر جہ ذیل اقتباسات شیخ الاسلام محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ کی کتاب"اصول ثلاثہ" کا اردو ترجمہ و تشریح سے ماخوذ ہیں جن کو دعوت و تبلیغ کی غرض سے قارئین کرام کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ اس کتاب کے شارح شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ ہیں۔ اس کتاب میں مؤ لف رحمہ اللہ نے سب سے پہلے چار مسائل کا تذکرہ کیا ہے جن کے اندر پورے دین کی بنیاد شامل ہے ۔ ان مسائل کی اہمیت کے پیش نظر ان کی معرفت حاصل کرنےاور ان کے بارے میں علم حاصل کرنے کا اہتمام کرنا ہم سب پر واجب ہے۔
وہ چار مسائل حسب ذیل ہیں:
اول : علم
یعنی دلائل کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی، اس کے نبی ﷺ کی اور دین اسلام کی معرفت اور پہچان حاصل کرنا۔ جو قرآن کی مقدس آیات اور نبی کریم ﷺ کی احادیث مبارکہ کے علم اور اس میں غور و فکر سے حاصل ہوگا۔
دوم : اس پر عمل کرنا۔
سوم : اس کی طرف لوگوں کو دعوت دینا۔
چہارم :اس راہ میں آنے والی تکالیف پر صبر کرنا۔
ان مذکورہ چاروں مسائل کےثبوت کی دلیل میں مؤلف نےسورۃ العصر میں اللہ تعالیٰ کےاس فرمان کو نقل کیا ہے:
وَ الْعَصْرِۙ۱اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍۙ۲اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ تَوَاصَوْا بِالْحَقِّ ۙ۬ وَ تَوَاصَوْا بِالصَّبْ۠رِ۳
"زمانے کی قسم، انسان در حقیقت خسارے میں ہے، سواۓ ان لوگوں کے جو ایمان لاۓ اور نیک اعمال کرتے رہے اور ایک دوسرے کو حق کی نصیحت اور صبر کی تلقین کرتے رہے"۔(سورۃالعصر)
تشریح
اللہ تعالیٰ نے اس سورۃ مبارکہ میں زمانے کی قسم اس بات پر کھائی ہے کہ کائنات کا ہر انسان نقصان اور گھاٹے میں ہے ، سوائے ان لوگوں کے جو اپنے اندر چار صفات جمع کر لیں۔
پہلی صفت: اللہ پر ایمان جس میں ہر وہ صحیح عقیدہ اور نفع بخش علم شامل ہے جو ایک مومن کو اللہ کے قریب کر دے۔
دوسری صفت : عمل صالح جو بندہ ٔمومن کو اللہ کے قریب کردے اور وہ ہے قرآن و سنت کے مطابق عمل جو خالص اللہ کے لیے کی جائے۔
تیسری صفت: آپس میں حق بات کی نصیحت جو بھلائی اور نیکی کے کاموں پر رغبت دلانے کے لیے ہو۔
چوتھی صفت: آپس میں صبر و استقامت کی نصیحت۔ یعنی اللہ کے احکامات پر قائم رہنے، اللہ کی نافرمانی سے بچنے اور اللہ کے فیصلوں پر راضی رہنے کی تلقین کرے۔ حق بات کی نصیحت اور صبر کی تلقین یہ دونوں اوصاف امر با المعروف و نہی عن المنکر کے ضمن میں آتے ہیں، اور یہی دونوں دعوت و تبلیغ کے اصول ہیں، جن کی بنا پر اس امت کا ثبات، اس کی بقا، اس کی فتح و نصرت اور شرف و عزت کا حصول ممکن ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
كُنتُمۡ خَيۡرَ أُمَّةٍ أُخۡرِجَتۡ لِلنَّاسِ تَأۡمُرُونَ بِٱلۡمَعۡرُوفِ وَتَنۡهَوۡنَ عَنِ ٱلۡمُنكَرِ وَتُؤۡمِنُونَ بِٱللَّهِۗ ٠
"تم بہترین امت ہو ، جو لوگوں کے لیے پیدا کی گئی ہے ، تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور بُرائی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔" (آل عمران : ۱۱۰)
اس سورۃ (سورۃ العصر) کے تعلق سے امام شافعی ؒ فرماتے ہیں :
" لو ما أنزل الله حجة على خلقه إلا هذه السورة لكفتهم"
(اگر اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق پر اس سورۃ کے علاوہ کوئی حجت نازل نہ فرماتا تو بھی یہ کافی ہو جاتی)۔ مطلب یہ کہ کوئی بھی عقل و بصیرت رکھنے والا انسان اس سورۃ مبارکہ کو پڑھ لے گا یا سن لے گا تو وہ لازماً ان چار صفات کو اپناکر اپنے آپ کو اس نقصان اور گھاٹے سے رہائی دلانے کی کوشش کرے گا ۔
امام بخاری ؒ نے صحیح بخاری میں "قول و عمل سے پہلے علم"کے نام سے ایک باب قائم کیا ہے:
بَابُ الْعِلْمِ قَبْلَ الْقَوْلِ وَالْعَمَلِ
( قول و عمل سے پہلے حصول علم کا بیان) ۔ اور اس کی دلیل میں اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد نقل کیا ہے :
فَٱعۡلَمۡ أَنَّهُۥ لَآ إِلَٰهَ إِلَّا ٱللَّهُ وَٱسۡتَغۡفِرۡ لِذَنۢبِكَ وَلِلۡمُؤۡمِنِينَ وَٱلۡمُؤۡمِنَٰتِۗ ١٩
"پس جان لیجئے کہ اللہ تعا لیٰ کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں اور اپنے گناہ پر استغفار کریں اور مومن مردوں اور عورتوں کے لیے بھی"(محمد:۱۹)
اس آیت کریمہ میں قول و عمل سے پہلے 'علم' (جان لینے) کا ذکر فرمایا گیا۔
امام بخاری ؒ نے اس آیت سے یہ دلیل لی ہے کہ قول و عمل سے پہلے 'علم' سے ابتداء واجب ہے۔کیونکہ انسان پہلے ایک چیز کی حقیقت کے بارے میں جانکاری حاصل کرتا ہے پھر بعد میں اس پر عمل پیرا ہوتا ہے۔چونکہ قول یا عمل اس وقت تک درست اور اللہ کی بارگاہ میں قبول نہیں ہوتا جب تک وہ شریعت کے مطابق نہ ہو اور یہ بات نا ممکن ہے کہ انسان بغیر علم حاصل کیے یہ جان لے کہ اس کا عمل شریعت کے مطابق ہے۔
سورۃ العصر کی مذکورہ آیات کی روشنی میں ہمیں اپنا محاسبہ کرنا چاہیے کہ کہیں ہم خسارہ اور نقصان اٹھانے والوں میں سے تو نہیں ہیں۔
اللہ ہم سب کو قرآن و سنت کی روشنی میں اپنے عقیدے کی اصلاح کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔