قرآن مجید میں متعدد مقامات پر رسول ﷺ کی مکمل اطاعت کا ذکر مختلف انداز سے آیا ہے اور اس بات کو پوری طرح سے واضح کر دیا گیا ہے کہ رسول ﷺ کی اطاعت و تابعداری ہی در اصل اللہ کی اطاعت ہے۔ چند آیات ملاحظہ ہو :
۱۔’’تمہارے لئے اللہ کے رسول میں اچھی پیروی ہے۔‘‘ (احزاب۔ ۲۱)
۲۔’’جس نے رسول ﷺ کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی۔‘‘ (النساء)
۳۔’’جو اللہ کے رسول ﷺ تم کو دیں اس کو لو اور جس سے منع کریں اس سے باز رہو۔‘‘ (حشر)
۴۔’’کہہ دو کہ اگر اللہ کی محبت کا دعویٰ ہے تو میری تا بعداری کرو۔‘‘ (آل عمران۔۳۱)
اسکے علاوہ اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے:
۱۔’’تم میں دو چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں جب تک تم انکو تھامے رہوگے راہ حق سے بے راہ نہ ہوگے۔ ایک اللہ کی کتاب دوسرے میری سنت۔‘‘ (موطا)
۲۔’’جس نے میرے طریقے سے منہ پھیرا وہ مجھ سے نہیں۔‘‘ (متفق علیہ)
۳۔’’جس نے میرے طریقے کو دوست رکھا مجھ کو دوست رکھا۔‘‘ (ترمذی)
مندرجہ بالا آیات اور احادیث سے یہ بات واضح ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ کی پیروی میں ہی ہماری نجات ہے۔ آپ ﷺکے اقوال اور اعمال مبارکہ ہم سب کے لئے نمونہ ہیں۔
لیکن افسوس کہ جس رحمتہ للعالمین ﷺ کو قرآن نے قُلْ إِن کُنتُمْ تُحِبُّونَ اللّہَ فَاتَّبِعُونِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّہ (عمران ۔۳۱) اور وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَک(الشرح۔۴) کا اعزاز عطا فرمایا ہے، اسی کے ارشادات و فرامین کے تعلق سے بعض حضرات کے دلوں میں خد شات و شبہات پائے جاتے ہیں ۔جبکہ ایک مسلمان کو اس بات پر یقین رکھنا چاہئے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے حفاظ کرام کو قرآن محفوظ رکھنے کی توفیق عطا فرمائی اسی طرح حفاظ حدیث کو بھی احادیث نبوی ﷺ کی حفاظت کی توفیق بخشی ہے، کیونکہ اگر حدیث دین ہے تو اس کی حفاظت کا ذمہ دار بھی حق تعالیٰ کو ہی ہونا چاہئے ورنہ دین ناقص رہ جائے گا۔ بعض لو گ بلا وجہ اس بے اطمینانی میں مبتلا نظر آتے ہیں کہ حدیث روایت کرنے والے اور حفاظ کرام ’’بہر حال تھے تو انسان ہی، انسانی علم کیلئے جو حدیں فطرۃً اللہ تعالیٰ نے مقرر کر رکھی ہیں ان کے آگے تو وہ بھی نہیں جا سکتے تھے۔ لہٰذا انسانی کاموں میں جو نقص فطری طور پر رہ جاتا ہے اس سے تو ان (حفاظ حدیث) کے کام بھی محفوظ نہ تھے۔‘‘ لیکن یہ بے اطمینانی در اصل تحفظ دین کے بنیادی فلسفہ اور طریقہ کار سے لا علمی کا نتیجہ ہے۔
جس طرح اجماع امت میں ہر فرد محفوظ نہیں ہوتا لیکن بحیثیت مجموعی مجتہدین کو پارسائی کا مقام حاصل ہوتا ہے، ٹھیک یہی صورت حفاظ قرآن کی بھی ہے۔ کسی نے ان کو غیر انسان یا اللہ کی مقرر کردہ فطری حدود سے باہر نہیں سمجھا ہے لیکن اس کے باوجود بھی کوئی ان کی انسانی کاوشوں کو بحیثیت مجموعی غیر محفوظ نہیں سمجھتا، پھر کیا وجہ ہے کہ احادیث نبوی کو روایت کرنے والے وہی صحابہ، ر اوی حدیث اور حفاظ جنھوں نے قرآن کو بھی حفظ و نقل کیا ہے، حفظ و روایت قرآن میں تو معتبر پائے جائیں لیکن روایت حدیث میں انہیں مشتبہ سمجھا جائے۔ اگر وہ لوگ نقل و روایت اور ضبط و حفاظت کے معاملہ میں تحریف و تساہل کے عادی تھے تو جس طرح ان غیر محتاط راویوں کی روایت کردہ احادیث ناقابل اعتماد ہیں، اسی طرح ان کی روایت ونقل سے آئی ہوئی آیات اللہ(قرآن) کا بھی اعتبار باقی نہیں رہنا چاہئے لیکن ایسا کوئی بھی شخص نہیں کہتا ۔
قرآن میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ’’اور ہم نے آپ پر یہ ذکر اتارا ہے تاکہ آپ لوگوں کو (اس کے احکام) کھول کر بیان کردیں جو ان کے طرف بھیجے گئے ہیں‘‘ (النحل۔۴۴)۔ اس آیت میں لفظ ’’ذکر ‘‘ سے کیا مراد ہے؟ اس کے متعلق اختلاف ہو سکتا ہے۔حالانکہ اس کی صحیح تعبیر رسول ﷺ پر نازل ہونے والی ہر وحی (قرآن و سنت) ہے۔ اگر ’’ذکر‘‘ کے معنی صرف قرآن سمجھے جائیں تو دوسری آیت إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ٩(الحجر۔۹) کی رو سے سنت تو غیر محفوظ قرار پائے گی جو صحیح نہیں ہے۔ اگر رسول ﷺ کے ذریعہ فرمائی گئی قرآن کریم کے مجمل احکام کی وضاحت کو (نعوذ باللہ) ناقص، غیر محفوظ اور غیر یقینی سمجھا جائے یا یہ شک ہو کہ آج اس کا اصل مضمون محفوظ نہیں رہا ہے تو پھرقرآنی احکام پر عمل کرنا نا ممکن قرار پائے گا ۔ لہٰذا اس بات پر یقین رکھنا ضروری ہے کہ جو شریعت رسول ﷺ پر نازل ہوئی اور آپ ﷺ پر ہی مکمل کردی گئی وہ یقینا آج بھی مسلمانوں کے لئے مکمل ، محفوظ اور باقی ہے، کسی بھی دور میں اس میں کوئی نقص واقع نہیں ہوا۔
بعض لوگ فتنہء وضع حدیث کے رو نما ہونے کے باعث ذخیرہ احادیث کو غیر محفوظ سمجھتے ہیں، لیکن یہ بات انتہائی نا قابل یقین ہے کہ اللہ کے دین اور دشمن اسلام کی سازشوں کی جنگ میں اللہ کے دین کو شکست ہو جائے اور دشمن دین چیزیں اس پر غالب آجائیں یا پھر احکام شریعت میں باطل چیزوں کی اس قدر آمیزش ہو جائے کہ عالم اسلام میں سے کسی مسلمان کے لئے بھی حق و باطل میں تمیز کرنا محال ہو کر رہ جائے۔اگر کوئی شخص ایسا کہتا یا سمجھتا ہے تو اس کے قول کا صاف مطلب یہ ہوگا کہ اللہ کے دین میں فساداور بگاڑ پیدا ہو چکا ہے اور احکام الٰہی میں ایسی باطل چیزوں کی آمیزش ہوگئی ہے کہ جن کو ماننے کا اللہ نے اپنے بندوں کو قطعاً حکم نہیں دیا تھا۔ اگر یہ بات درست تسلیم کر لی جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ نعوذ باللہ اللہ تعالیٰ اپنے پسندیدہ دین کی حفاظت کرنے سے قاصر رہا یا پھر اپنے ہی دین کی تخریب سے راضی ہوا۔ لیکن چونکہ یہ دونوں چیزیں ممکن نہیں ہیں لہٰذذخیرہ احادیث کو غیر محفوظ سمجھنا صحیح نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا ہم یقین کے ساتھ کہتے ہیں کہ آج بھی سرمایہ حدیث کا بیشترحصہ جوں کا توں محفوظ ہے۔ اگر کسی وجہ سے اس کا کچھ حصہ ضائع ہوا بھی ہے تو امت کو یقینا اس کی ضرورت نہ تھی، ورنہ اللہ تعالیٰ نے جس طرح حدیث نبوی کے اس بڑے ذخیرہ کی حفاظت فرمائی ہے اسی طرح اس مختصر سے حصہ کے تحفظ کی بھی کوئی نہ کوئی سبیل ضرور پیدا فرما دیتا۔
جس طرح اللہ تعالیٰ اور اس کی کتاب پر ایمان لانا فرض ہے، اسی طرح رسول اللہ ﷺ کی رسالت پر ایمان لانا، آپکی اطاعت کرنا، آپ کے فیصلوں کو دل کی تنگی و ناگواری کے بغیر تسلیم کرنا، آپ کے اسوہ اور پیروی کو رضائے الٰہی اور آخرت کی نجات کا ذریعہ سمجھنا اور آپ کے اوامر و نواہی کی پابندی کرنا، وغیرہ یہ سب فرائض ہیں۔ یہ سارے فرائض خود قرآن نے عائد کئے ہیں۔ ان فرائض کو عائد کرنے کے بعد قرآن نے دین کے بڑے اہم اہم اور بنیادی قسم کے مسائل میں خاموشی اختیار کرلی ہے۔ نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ ادا کرنیکا حکم سیکڑوں جگہ دیا ہے۔ مگر ان کی تفصیلات سے خاموش ہے۔ اسی طرح قرآن نے زندگی کے بے شمار مسائل میں ْصرف بعض بنیادی امور کی طرف اشارہ کرکے خاموشی اختیار کرلی ہے۔ کیونکہ اس نے باقی تفصیلات کا دارومدار اسوہ رسول پر رکھدیا ہے۔ اب جولوگ یہ کہتے ہیں کہ قرآن سے باہر اسوہ رسول کہیں بھی محفوظ نہیں رہ گیا ہے، اور احادیث کے نام سے جو ذخائر امت تک پہنچی ہے انکی کوئی حیثیت اور کوئی مقام نہیں، وہ در حقیقت قرآن کو ناقابل عمل اور اسکی رہنمائی کو سراپا لغو سمجھ رہے ہیں اور انکا ر حدیث کا لبادہ اوڑھ کر قرآنی تعلیمات کو روندنے اور کچلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ لوگ اللہ تعالیٰ کو عاجز ، مجبور اور بے بس سمجھ رہے ہیں کہ اس نے اسوہ رسول کی پیروی کا حکم تو دے دیا ، اور اسے نجات کا ذریعہ تو ٹھہرادیا، لیکن چند ہی برس بعد جب چند سازشیوں نے اس اسوہ رسول کے خلاف سازش کی تو اللہ تعالیٰ (نعو ذ باللہ) اپنی تمام تر قدرت، طاقت اور حکمت کے باوجود انکے ’’سازش‘‘ کو ناکام نہ بنا سکا، امت کی دستگیری نہ کر سکا او ر ہمیشہ کے لئے گمراہی میں بھٹکتا ہوا چھوڑ دیا۔ اس طرح کا سوچ رکھنا ساری امت کو بیوقوف سمجھنے کے مترادف ہے۔
امام سفیان الثوری ؒ کا مشہور قول ہے کہ: ما ستراللہ عزوجل احدا یکذب فی الحدیث یعنی ’’ اگر کوئی شخص (گھر کے چہار دیواری کے اندر بھی) حدیث کے بارے میں جھوٹ بولتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو ضرور ظاہر فرما دے گا۔‘‘ (الموضوعات لابن الجوزی)۔ سفیان ثوری ؒ کا ایک اور قول ہے کہ : ’’فرشتے آسمان کے نگہبان ہیں اور محدثین زمین کے۔‘‘ امام دار قطنی ؒ کا قول ہے : ’’اے بغداد والو ! یہ نہ سمجھ لو کہ تم میں سے کوئی نبی ﷺ پر جھوٹ باندھ سکتا ہے جب تک کہ میں زندہ ہوں۔‘‘ اسی طرح منقول ہے کہ : ’’جس طرح چاندی کو پرکھنے والے ہوتے ہیں اسی طرح حدیث کے نقاد بھی موجود ہیں۔‘‘ اس طرح کے اور بھی بہت سے اقوال پیش کئے جا سکتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے احادیث کو ہر قسم کی آمیزش سے محفوض رکھنے کے لئے محدثین کرام سے کس قدر خدمات لی ہیں۔
حدیث نبوی کے محفوظ ہونے پر امام ابن حزم اندلسی ؒ نے ایک مقام پر خبر واحد کی حجیت پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’خبر واحد میں شبہات اصلاً سند کی وجہ سے ہی ہے لیکن جب ان احادیث کو رسول ﷺ سے براہ راست صحابہ کرام نے سنا تھا تو اس وقت نہ کوئی سند تھی اور نہ شک و شبہ، گویا دین محفوظ تھا تو کیا اللہ تعالیٰ کی حفاظت کے وعدہ کی مدت یہیں پر ختم ہو گئی ؟ مستقبل کے لئے اللہ تعالیٰ نے اس کی حفاظت کا کوئی انتظام نہ فر مایا کہ کذاب، وضاعین اور مفتری بہ آسانی دین حق پر غالب آگئے؟ اگر ایسا نہیں ہوا تو بلا شبہ دین تا قیامت محفوظ ہوگا، پس ثابت ہوا کہ یقیناً کسی عادل راوی سے رسول ﷺ تک پہنچنے والی ہر متصل خبر واحد قطعی ، موجب عمل اور موجب علم ہے۔‘‘ (الاحکام فی اصول الاحکام لابن حزم)
آگے فرماتے ہیں : ’’ دین مکمل ہے جیسا کہ آیت الیوم اکملت لکم دینکم سے ظاہر ہوتا ہے۔ اس دین کی حفاظت کا ذمہ خود اللہ تعالیٰ نے لیا ہے جیسا کہ إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَسے واضح ہوتا ہے۔ پس اگر متآخرین فقہاء کے خیال کے مطابق مکمل دین پر ظنون و اوھام غالب ہو جائیں اور حق و باطل اس طرح غلط ملط ہو جائے کہ ان کے مابین تمیز محال ہو تو حفاظت دین کا وعدہ کس طرح پورا ہوا ؟ واضح رہے کہ مندرجہ بالاآیت میں لفظ ‘‘الذکر‘‘ قرآن و سنت دونوں پر حاوی ہے۔ پس اگر متآخرین کے خیال کو درست مان لیا جائے تو شریعت میں تشکیک اور دین کے انہدام کے مترادف ہو گا۔‘‘ (الاحکام فی اصول الاحکام لابن حزم)
اللہ کا ارشاد ہے : ’’ہم نے ہی اس ذکر (قرآن) کو نازل فرمایا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔‘‘ (۱لحجر۔ ۹) اور ’’کہہ دیجئے کہ میں تو تمہیں اللہ کی وحی کے ساتھ آگاہ کر رہا ہوں ‘‘ ّ(الانبیاء ۔۴۵)۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ یہ خبر دے رہا ہے کہ اس کے نبی ﷺ کا کلام تمام کا تمام وحی ہے اور بالاختلاف ذکر ہے اور ذکر نص قرآن کے مطابق محفوظ ہے۔‘‘ (الاحکام ابن حزم)۔
آگے چل کر فرماتے ہیں : ’’نبی ﷺ کے متعلق خود اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ’’اور نہ اپنی خواہش سے کوئی بات کہتے ہیں وہ تو صرف وحی ہے جو اتاری جاتی ہے‘‘ (النجم ۳،۴)۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کو یہ اعلان کرنے کا بھی حکم دیا ہے : ’’ میں تو صرف جو کچھ میرے پاس وحی آتی ہے اس کی اتباع کرتا ہوں ‘‘ (الانعام۔۵۰)۔ اللہ تعالیٰ مزید فرماتا ہے :’’ہم نے ہی اس ذکر (قرآن) کو نازل فرمایا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں‘‘ اور ’’اور ہم نے آپ پر یہ ذکر اتارا ہے تاکہ آپ لوگوں کو (اس کے احکام) کھول کر بیان کردیں جو ان کے طرف بھیجے گئے ہیں‘‘۔
پس واضح ہوا کہ رسول ﷺ کا ہر کلام دین میں وحی ہے اور بلا شک و شبہ وحی اللہ کی جانب سے بھیجی جاتی ہے۔اس بارے میں بھی اہل لغت اور اہل شریعت کے ما بین کوئی اختلاف نہیں ہے کہ ہر وحی جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوئی ’’ذکر ‘‘ ہے اور ہر وحی یقینی طور پر اللہ تعالیٰ کے حفظ میں ہونے کے باعث محفوظ ہے۔
اور جن چیزوں کی حفاظت کا ذمہ اللہ نے لیا ہے ان کے متعلق یہ ضمانت موجود ہے کہ ان میں سے نہ کوئی چیز ضائع ہو سکتی ہے اور نہ ان میں کبھی کوئی ایسی تحریف ممکن ہے جس کا بطلان غیر واضح ہو۔پس واجب ہے کہ جو دین رسول ﷺ ہمارے پاس لائے وہ اللہ تعالیٰ کی حفاظت و تولیت کے باعث محفوظ اور ہر طالب کے لئے دنیا کے باقی رہنے تک اسی طرح مبلغ ہو۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : لأُنذِرَکُم بِہِ وَمَن بَلَغ ’’تاکہ میں اس قرآن کے ذریعہ سے تم کو اور جس جس کو یہ قرآن پہنچے ان سب کو ڈراؤں ‘‘ (الانعام ۔ ۱۹)
پس اگر معاملہ ایسا ہی ہے تو لازماً ہم جانتے ہیں کہ رسول ﷺ نے دین کے متعلق جو کچھ بھی فرمایا اس میں سے کسی شئے کے ضیاع کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ اور نہ ہی اس بات کا کوئی راستہ ہے کہ کوئی باطل اور موضوع چیز اس میں داخل ہو جائے اور اس قدر خلط ملط ہو جائے کی کوئی شخص یقینی طور پر اس کی تمیز نہ کر سکتا ہو۔ اگر اس امکان کو جائز قرار دے دیا جائے تو ذکر غیر محفوظ ہو جائے گا حالانکہ اس کے لئے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ: ’’انا نحن نزلنا الذکر و انا لہ لحافظون‘‘ کوئی بھی مسلم ایسا نہیں سوچ سکتا کیونکہ اس سے آیت کی تکذیب اور اللہ کی طرف سے وعدہ خلافی کا اظہار ہو تا ہے ۔ (فنعوذباللہ)
اگر یہاں کوئی یہ کہے کہ اس آیت سے اللہ تعالیٰ کی مراد صرف قرآن کی حفاظت ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے صرف قرآن کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے تمام وحی جو قرآن نہیں ہے اس کی ضمانت اللہ کے ذمہ نہیں ہے ۔ تو ہم اس سے یہ کہیں گے کہ یہ دعو یٰ دلیل و برحان کے بغیر محض ایک جھوٹا دعویٰ ہے ۔ ’’الذکر‘‘ کی یہ تخصیص بلا دلیل ہو نے کے باعث باطل ہے۔ اللہ تعالٰی فرماتا ہے ’’قل ھا تو برھانکم ان کنتم صادقین‘‘ یعنی آپ کہ دیجئے کہ اگر تم اپنے دعویٰ میں سچے ہو تو دلیل پیش کرو۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ جس کے پاس اپنے دعویٰ پر کوئی دلیل نہ ہو وہ اپنے دعویٰ میں صادق نہیں ہے۔ لہٰذا اس میں ’’الذکر‘‘ عام ہے اور ہر اس چیز پر واقع ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ پر بذریعہ وحی نازل فر مائی، وہ قرآن ہو یا قرآن کی شرح سنت۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ’’اور ہم نے آپ پر یہ ذکر اتارا ہے تاکہ آپ لوگوں کو (اس کے احکام) کھول کر بیان کردیں جو ان کے طرف بھیجے گئے ہیں‘‘ (النحل۔۴۴)۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ رسول ﷺ لوگوں کے لئے قرآن کی توضیح و بیان کے لئے مامور تھے۔ کیونکہ قرآن میں بہت سی چیزیں مجمل ہیں مثلاً صلاۃ، ذکوٰۃ اور حج وغیرہ۔ ان چیزوں کے متعلق جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے الفاظ میں ہمارے لئے لازم قرار دیا ہے ، ہم کچھ نہیں جان سکتے الا یہ کہ ان الفاظ کی اس توضیح و تفسیر کی طرف رجوع کریں جو رسول ﷺ نے بیان فرمائی ہے، پس اگر ان قرآن کی مجمل آیات کی بیان کردہ رسول ﷺ کی تفسیر و بیان غیرمحفوظ ہو یا اس کی سلامتی کی کوئی ضمانت موجود نہ ہو تو نصوص قرآن سے انتفاع باطل ہوا جس سے ہمارے اوپر فرض کی گئی شریعت کا بیشتر حصہ باطل ہو جاتا ہے۔ (الاحکام ابن حزم)
حافظ ابن قیم ؒ آیت إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’پس معلوم ہوا کہ بے شک رسول ﷺ کا دینی معاملات میں ہر ارشاد نرا و حی الٰہی ہے اور جب یہ اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ وحی ہے تو اس ’’ذکر‘‘ کے حکم میں داخل ہے (جس کی حفاظت کا وعدہ و ذمہ اللہ عزوجل نے لے رکھا ہے)۔‘‘ (الصواعق المرسلہ ۲؍۳۷۱)
شیخ عبدالجبار عمر پوری ؒ فرماتے ہیں : ’’جس طرح پر ور دگار قرآن کا محافظ و نگہبان ہے، اسی طرح حدیث کا بھی ہے۔ فرمایا اللہ تعالیٰ نے ’’ہم نے قرآن کو نازل کیا اور ہم اس کے نگہبان ہیں‘‘۔ جبکہ قرآن و حدیث دونوں کی ضرورت ہے تو یہ کیوں کر ہو سکتا ہے کہ خدا صرف قرآن کی حفاظت کرے اور حدیث کو بغیر حفاظت کے چھوڑ دے ۔ اس نے حفاظت کے لئے امامان محدثین کو پیدا کیا جنہوں نے ایک ایک حدیث کے لئے دور دراز سفر طے کئے اور راویوں کی جانچ پرتال میں بہت کوشش فرمائیں، لفظ لفظ کی تحقیق میں کوئی دقیقہ فرد گذاشت نہیں کیا۔ بڑی بڑی کتابیں اس بارے میں تالیف فرمائیں ، صحیح کو ضعیف سے اور ناسخ کو منسوخ سے الگ کر دکھایا۔ غرض حدیث پر عمل کرنے کے لئے کوئی عذر و حیلہ باقی نہ چھوڑا، الخ۔‘‘ (عظمت حدیث)
جناب مفتی محمد شفیع صاحب فرماتے ہیں : ’’ جب قرآن فہمی کے لئے تعلیم رسول ضروری ہے اس کے بغیر قرآن پر صحیح عمل نا ممکن ہے تو جس طرح قرآن قیامت تک محفوظ ہے ، اس کا ایک ایک زیر و زبر محفوظ ہے ، ضروری ہے کہ تعلیمات رسول بھی مجموعی حیثیت سے قیامت تک باقی اور محفوظ رہیں، ورنہ محض الفاظ قرآن کے محفوظ رہنے سے نزول قرآن کا اصلی مقصد پورا نہ ہوگا، اور یہ بھی ظاہر ہے کہ تعلیمات رسول ﷺ وہی ہیں جن کو سنت یا حدیث رسول کہا جاتا ہے، اس کی حفاظت کا وعدہ اللہ جل شانہ کی طرف سے اگرچہ اس درجہ میں نہیں ہے جس درجہ کی حفاظت قرآن کے لئے موعود ہے : ’’إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ ’’ہم نے قرآن کو نازل کیا ہے ، ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔‘‘ جس کا یہ نتیجہ ہے کہ اس کے الفاظ اور زیر و زبر تک بالکل محفوظ چلے آئے ہیں اور قیامت تک اسی طرح محفوظ رہیں گے، سنت رسول اللہ ﷺکے الفاظ اگرچہ اس طرح محفوظ نہیں لیکن مجموعی حیثیت سے آپ ﷺ کے تعلیمات کا محفوظ رہنا آیت مذکورہ کی رو سے لازمی ہے، اور بحمد اللہ آج تک وہ محفوظ چلی آتی ہیں۔جب کسی طرف سے اس میں رخنہ اندازی یا غلط روایات کی آمیزش کی گئی ماہرین سنت نے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی الگ نکھار کر رکھ دیا اور قیامت تک یہ سلسلہ بھی اسی طرح رہے گا۔ رسول ﷺ نے فرمایا کہ میری امت میں قیامت تک ایسی جماعت اہل حق اور اہل علم قائم رہے گی، جو قرآن و حدیث کو صحیح طور پر محفوظ رکھے گی اور ان میں ڈالے گئے ہر رخنہ کی اصلاح کرتی رہے گی۔ ‘‘ (معارف القرآن ۔۱؍۲۸۱)
آں رحمہ اللہ ایک اور مقام پر لکھتے ہیں : ’’اگر آج کوئی شخص ذخیرہ حدیث کو کسی حیلے بہانے سے نا قابل اعتماد کہتا ہے تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ رسول ﷺ نے اس حکم قرآنی کی خلاف ورزی کی کہ مضامین قرآن کو بیان نہیں کیا یا یہ کہ آپ ﷺ نے تو بیان کیا تھا مگر وہ قائم و محفوظ نہیں رہا، بہر دو صورت قرآن بحیثیت معنی کے محفوظ نہ رہاجس کی حفاظت کی ذمہ داری خود حق تعالیٰ نے اپنے ذمہ رکھی ہے۔( انا لہ لحافظون) اس کا یہ دعویٰ اس نص قرآنی کے خلاف ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ جو شخص سنت رسول ﷺ کو اسلام کی حجت ماننے سے انکار کرتا ہے وہ در حقیقت قرآن ہی کا منکر ہے۔ نعوذ باللہ۔‘‘ (معارف القرآن ۔ ۵؍۳۳۷)
سنت نبوی کے محفوظ، مصون اور مامون ہونے کی ایک دلیل رسول ﷺ کی یہ پیشن گوئی بھی ہے: ’’اس علم (حدیث) کے حامل ایک دوسرے کے پیچھے ہمیشہ ایسے عادل لوگ ہونگے جو اسے حد سے تجاوزکرنے والی تحریف ، باطل پرستوں کی گھڑی ہوئی اور جاہلوں کی تاویل سے پاک کرتے رہیں گے۔‘‘ (شرف اصحاب الحدیث للخطیب بغدادی) سرمایہ حدیث کے محفوظ ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ جمہور امت نے اسے متفقہ طور پر محفوظ و مصون سمجھ کر تصدیقاً و عملاً قبول کیا ہے۔اور چونکہ پوری امت گمراہی پر کبھی جمع نہیں ہو سکتی لہٰذا یوں بھی ہمارا نقطہ نظر ثابت ہوا، فالحمدللہ علیٰ ذٰلک۔ (ماخوذ)
Where is Allaah?
Sufyän ath-Thawri (رَحِمَهُ الله) said: