Date & Time:

بِسۡمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحۡمَٰنِ ٱلرَّحِيمِ

صحیح بخاری کی پہلی ا و رآخری حدیث

امام بخاری ؒ نے اپنی کتاب صحیح بخاری کا آغاز وحی کے ذکر کے بعد حدیثِ نیت ’’ انما الاعمال بالنيات ‘‘ سے کیا۔ یعنی: تمام اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے ۔ امام بخاریؒ نے اس حدیث سے کتاب کا آغاز اس لیے فرمایا کہ ہر نیک عمل کی قبولیت اور تکمیل کے لیے خلوصِ نیت بنیادی شرط ہے۔ گویا کہ تمام اعمال کی قبولیت کا انحصار دو چیزوں پر ہے:
۱۔ عمل کا اخلاص کے ساتھ ہونا۔
۲۔ عمل کا وحی (سنت) کے مطابق ہونا۔
اعمال کی قبولیت کے لیے یہ لازم ہے کہ وہ اللہ کی وحی (سنت رسول ﷺ) کے مطابق ادا کیے جائیں اور اس میں خلوص ہو۔ اگر عمل میں ریاکاری ہے تو وہ قابلِ قبول نہیں اور اگر اخلاص موجود ہو لیکن وہ عمل سنت کے مطابق نہیں ہے، تب بھی وہ عمل مردود ہوگا۔امام بخاریؒ نے ان دو اصولوں (اخلاص اور اتباعِ سنت) کو بنیاد بنا کر پوری کتاب مرتب کی ہے۔ صحیح بخاری کا محور یہی دو باتیں ہیں:
۱۔ ہر عمل اخلاص کے ساتھ کیا جائے۔
۲۔ ہر عمل اللہ کی وحی (سنت) کے مطابق کیا جائے۔
یہی دو بنیادیں آخرت کے عدل کے میزان (ترازو) میں اعمال کے وزن کا پیمانہ ہوں گی۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بیان فرمایا: وَنَضَعُ ٱلۡمَوَٰزِينَ ٱلۡقِسۡطَ لِيَوۡمِ ٱلۡقِيَٰمَةِ (الانبیا ۴۷) ترجمہ: ’’اور ہم قیامت کے دن عدل کا میزان قائم کریں گے‘‘۔ یہ میزان اعمال کو ان کے اخلاص اور اتباعِ سنت کے معیار پر پرکھے گی۔ وہی عمل وزن میں بھاری ہوگا جو اخلاص کے ساتھ اور سنت کے مطابق کیا گیا ہوگا۔ قیامت کا دن ایک ایسا ہولناک دن ہوگا جس کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ ہر شخص اپنے اعمال کے وزن کا منتظر ہوگا۔ تصور کیجئے حساب کی گھڑی آ چکی، پیغام آپکو دیا جا چکا ہےکہ’’ ہم قیامت کے حساب کے لئے عدل کا میزان قائم کریں گے‘‘۔ایک انصاف ہوتا ہے اور ایک عدل ہوتا ہے۔ عدل اور انصاف میں فرق بھی سمجھنا ضروری ہے:
انصاف یہ ہے کہ دو افراد میں برابر تقسیم کر دیا جائے۔
عدل یہ ہے کہ ہر ایک کو اس کا حق دیا جائے، جس چیز کا وہ مستحق ہے ۔
یعنی جو شخص جس چیز کا مستحق ہو گا سزا یا جزا کا اسے وہی ملے گا۔وہاں معاملہ عدل اور فضل کا ہوگا۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے فیصلے میں عدل اور فضل دونوں ہوں گے۔ اگر صرف عدل ہوا تو بڑے بڑے نیکوکار کانپ اٹھیں گے۔ اور اگر فضل پر معاملہ ہوا تو ایک نیکی کی پرچی گناہوں کے ۹۹ رجسٹروں کے پَرَخْچے اڑادیں گے۔ صرف ایک نیکی۔ جیسا کہ صحیح حدیث میں ہے کہ قیامت کے دن ایک آدمی کو تمام مخلوقات کے سامنے لایا جائے گا۔ اس کے سا منے ننانوے رجسڑ پھیلا دیے جائیں گے (‏‏‏‏جن میں اس کے گناہوں کا اندراج ہو گا)، ہر رجسٹر تاحد نگاہ ہو گا۔بندہ گناہوں سے بھڑے ہوئے ان ۹۹ دفتروں کو دیکھے گا، رجسٹروں کو دیکھے گا تو اپنا رخ خود ہی جہنم کی طرف کر لے گا ۔ اللہ سبحانہ تعالیٰ اس کو بلائے گا۔ میرے بندے تیری ایک نیکی میرے پاس موجود ہے۔ میں نے تیری یہ پرچی تیرے لئے سنبھال کر رکھی ہے ۔ بندہ کہے گا یا اللہ یہ ایک پرچی ان رجسٹروں کا کیا مقابلہ کرے گی۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا میرے بندے جاو ٔوزن دیکھو وزن کیا جا رہا ہے۔ پھر ترازو کے ایک پلڑے میں (‏‏‏‏ننانوے)رجسٹر رکھے جائیں گے اور دوسرے میں وہ پرچہ (‏‏‏‏ ‏‏‏‏نتیجتاً) وہ رجسٹر (کم وزن ہونے کی وجہ سے) اوپر کو اٹھ جائیں گے اور پرچے (والا پلڑا) بھاڑی پر جائے گا اورگناہوں کا دفتر اوپر اٹھنے لگے گا۔ (سلسلہ احادیث صحیحہ)

تو یہ معاملہ فضل کا ہے۔ یہ فضل کیوں ہے ؟ وہ نیکی کیا تھی؟ اشهد ان لا اله الا الله وان محمد عبده ورسوله کا کلمہ تھا ۔اس بندے نے یہ کلمہ کس خالص یقین اور اخلاص کے ساتھ ادا کیا ہوگا؟کس طرح اس کے دل میں شرک سے نفرت ہوگی۔ اللہ کو ایسا پسند آیا کہ اسکی یہ نیکی نوٹ کرکے اپنے پاس محفوظ کر لی۔ یہ اللہ کے فضل کا معاملہ ہوگا اور یہ توحید کی برکتیں ہیں ۔اسلئے ان تقاضوں کو سامنے رکھ کر آخرت کی تیاری کرنی چاہئے۔

عدل کا میزان قائم ہونا ہی ہیبتناک ہے۔ یہ ترازو لایا جائے گا ۔ میدان حشر میں لوگ اکٹھے ترازو کا لایا جانا ، نصب کیا جانا اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہونگے اور سوچیں گے کہ یہ ترازو کیوں لایا جا رہا ہے؟ ہمارے کڑے حساب کے لئے۔کڑا حساب اعمال کی گنتی نہیں ہے ۔ کڑا حساب اعمال کا وزن ہے۔ قیامت کے دن اعمال کا وزن محض گنتی کے حساب سے نہیں ہوگا بلکہ ان کا معیار اخلاص اور اتباعِ سنت پر پرکھا جائے گا۔ اگر عمل میں اخلاص نہ ہو یا وہ سنت کے مطابق نہ ہو، تو وہ برباد ہو جائے گا۔ بڑے بڑے نیک اعمال جیسے نماز، روزے، حج، زکوٰۃ اور جہاد بھی اس وقت بے وزن ہو جائیں گے اگر ان میں ریاکاری ہو یا وہ خلافِ سنت ہوں۔

قیامت کے دن بہت سے لوگ اتنی بڑی نیکیاں لے کر آئیں گےکہ ان کا وزن تہامہ پہار کے بڑابر ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ان تمام نیکیوں کو خاک بنا کر اڑادے گا۔ یہ کون لوگ ہونگے؟ یہ وہ لوگ ہونگے جو دنیا کے سامنے بڑے پارسا بن کر زبانوں کو حرکت دیتے رہتے کہ ہر وقت ذکر میں مشغول رہتے ہیں دنیا کو دکھانے کی خاطر۔ لیکن جب اکیلے ہوتے ہیں تو بڑے بھیانک قسم کے گناہ کرتے ہیں، اللہ کی حدود کو توڑتے ہیں۔ دنیا کو دکھانے کے لئے اچھا روپ اور اپنے پروردگار کو دکھانے کے لئے خبیث روپ۔ اخلاص نہیں تو نیکیاں برباد ہو جائیں گی ۔ اسی طرح عمل میں اخلاص تو ہے لیکن اللہ کے حبیب کی سنت کی اتباع نہیں تو نیکیاں برباد ہو جائیں گی ۔ امام بخاریؒ نے اسی نکتے پر صحیح بخاری کو ختم کرتے ہوئے حدیث پیش کی: كَلِمَتَانِ حَبِيْبَتَانِ إِلَى الرَّحْمٰنِ، خَفِيفَتَانِ عَلَى اللِّسَانِ، ثَقِيلَتَانِ فِي الْمِيزَانِ سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ، سُبْحَانَ اللَّهِ الْعَظِيمِ ‏۔ دو کلمے ایسے ہیں جو اللہ تبارک وتعالیٰ کو بہت ہی پسند ہیں جو زبان پر ہلکے ہیں اور قیامت کے دن اعمال کے ترازو میں بوجھل اور باوزن ہوں گے ۔ وہ کلمات مبارکہ یہ ہیں ’’سبحان الله وبحمده ، ‏‏‏‏ سبحان الله العظيم‘‘ ۔ یہ کلمات توحید اور اللہ کی عظمت کا خلاصہ ہیں۔

یہ دو کلمے اللہ کو محبوب ہیں، ان کلموں کو کثرت سے پڑھنی چاہیئے اور اللہ کی عظمت کو پہچان لینی چاہیئے۔ اس کی عظمت کیا ہے انسان نہیں جانتا۔ ساتوں آسمان اللہ کی کرسی کے مقابلے میں ایسے ہے جیسے سات سکّے اوپر نیچے پڑے ہوں اور کرسی اللہ کی دوقدم رکھنے کی جگہ ہے۔ اور یہ کرسی اللہ کے عرش کے مقابلے میں ایسے ہے جیسے ایک چھلّہ چٹیل میدان میں پڑ۱ ہو۔ اس عرش پر پرور دگار مستوی ہے۔ کتنی عظیم ذات ہے۔ اور حساب دینے کے لیئے تنہا اس کے سامنے کھڑا ہو نا ہے۔ اس کے سامنے اکیلے جانا ہے اور پوری زندگی کا حساب دینا ہے۔اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم اخلاص کے ساتھ اور سنت رسول ﷺ کے مطابق اعمال انجام دیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنی رحمت اور فضل سے عذاب سے محفوظ فرمائے۔ آمین۔

Where is Allaah?

Allah is above the 'Arsh

"They fear their Lord above them, and they do what they are commanded." [al-Nahl 16:50]
"Do you feel secure that He, Who is over the heaven, will not cause the earth to sink with you?" [al-Mulk 67:16]

Sufyän ath-Thawri (رَحِمَهُ الله) said:

"The example of the scholar is like the example of the doctor,he does not administer the medicine except on the place of the illness.”

(Al-Hilyah 6/368)

Shaykh Sālih al-'Uthaymin said:

"Indeed knowledge is from the best acts of worship and is one of the greatest and most beneficial of it. Hence, you will find Shaytan keeping people away from (seeking) knowledge."
[فتاوى نور على الدرب ۱۲/۲]