تو یہ معاملہ فضل کا ہے۔ یہ فضل کیوں ہے ؟ وہ نیکی کیا تھی؟ اشهد ان لا اله الا الله وان محمد عبده ورسوله کا کلمہ تھا ۔اس بندے نے یہ کلمہ کس خالص یقین اور اخلاص کے ساتھ ادا کیا ہوگا؟کس طرح اس کے دل میں شرک سے نفرت ہوگی۔ اللہ کو ایسا پسند آیا کہ اسکی یہ نیکی نوٹ کرکے اپنے پاس محفوظ کر لی۔ یہ اللہ کے فضل کا معاملہ ہوگا اور یہ توحید کی برکتیں ہیں ۔اسلئے ان تقاضوں کو سامنے رکھ کر آخرت کی تیاری کرنی چاہئے۔
عدل کا میزان قائم ہونا ہی ہیبتناک ہے۔ یہ ترازو لایا جائے گا ۔ میدان حشر میں لوگ اکٹھے ترازو کا لایا جانا ، نصب کیا جانا اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہونگے اور سوچیں گے کہ یہ ترازو کیوں لایا جا رہا ہے؟ ہمارے کڑے حساب کے لئے۔کڑا حساب اعمال کی گنتی نہیں ہے ۔ کڑا حساب اعمال کا وزن ہے۔ قیامت کے دن اعمال کا وزن محض گنتی کے حساب سے نہیں ہوگا بلکہ ان کا معیار اخلاص اور اتباعِ سنت پر پرکھا جائے گا۔ اگر عمل میں اخلاص نہ ہو یا وہ سنت کے مطابق نہ ہو، تو وہ برباد ہو جائے گا۔ بڑے بڑے نیک اعمال جیسے نماز، روزے، حج، زکوٰۃ اور جہاد بھی اس وقت بے وزن ہو جائیں گے اگر ان میں ریاکاری ہو یا وہ خلافِ سنت ہوں۔
قیامت کے دن بہت سے لوگ اتنی بڑی نیکیاں لے کر آئیں گےکہ ان کا وزن تہامہ پہار کے بڑابر ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ان تمام نیکیوں کو خاک بنا کر اڑادے گا۔ یہ کون لوگ ہونگے؟ یہ وہ لوگ ہونگے جو دنیا کے سامنے بڑے پارسا بن کر زبانوں کو حرکت دیتے رہتے کہ ہر وقت ذکر میں مشغول رہتے ہیں دنیا کو دکھانے کی خاطر۔ لیکن جب اکیلے ہوتے ہیں تو بڑے بھیانک قسم کے گناہ کرتے ہیں، اللہ کی حدود کو توڑتے ہیں۔ دنیا کو دکھانے کے لئے اچھا روپ اور اپنے پروردگار کو دکھانے کے لئے خبیث روپ۔ اخلاص نہیں تو نیکیاں برباد ہو جائیں گی ۔ اسی طرح عمل میں اخلاص تو ہے لیکن اللہ کے حبیب کی سنت کی اتباع نہیں تو نیکیاں برباد ہو جائیں گی ۔ امام بخاریؒ نے اسی نکتے پر صحیح بخاری کو ختم کرتے ہوئے حدیث پیش کی: كَلِمَتَانِ حَبِيْبَتَانِ إِلَى الرَّحْمٰنِ، خَفِيفَتَانِ عَلَى اللِّسَانِ، ثَقِيلَتَانِ فِي الْمِيزَانِ سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ، سُبْحَانَ اللَّهِ الْعَظِيمِ ۔ دو کلمے ایسے ہیں جو اللہ تبارک وتعالیٰ کو بہت ہی پسند ہیں جو زبان پر ہلکے ہیں اور قیامت کے دن اعمال کے ترازو میں بوجھل اور باوزن ہوں گے ۔ وہ کلمات مبارکہ یہ ہیں ’’سبحان الله وبحمده ، سبحان الله العظيم‘‘ ۔ یہ کلمات توحید اور اللہ کی عظمت کا خلاصہ ہیں۔
یہ دو کلمے اللہ کو محبوب ہیں، ان کلموں کو کثرت سے پڑھنی چاہیئے اور اللہ کی عظمت کو پہچان لینی چاہیئے۔ اس کی عظمت کیا ہے انسان نہیں جانتا۔ ساتوں آسمان اللہ کی کرسی کے مقابلے میں ایسے ہے جیسے سات سکّے اوپر نیچے پڑے ہوں اور کرسی اللہ کی دوقدم رکھنے کی جگہ ہے۔ اور یہ کرسی اللہ کے عرش کے مقابلے میں ایسے ہے جیسے ایک چھلّہ چٹیل میدان میں پڑ۱ ہو۔ اس عرش پر پرور دگار مستوی ہے۔ کتنی عظیم ذات ہے۔ اور حساب دینے کے لیئے تنہا اس کے سامنے کھڑا ہو نا ہے۔ اس کے سامنے اکیلے جانا ہے اور پوری زندگی کا حساب دینا ہے۔اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم اخلاص کے ساتھ اور سنت رسول ﷺ کے مطابق اعمال انجام دیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنی رحمت اور فضل سے عذاب سے محفوظ فرمائے۔ آمین۔
Where is Allaah?
Sufyän ath-Thawri (رَحِمَهُ الله) said: