علماء کرام اگر کسی حدیث کی کوئی توجیہ بیان کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ توجیہ ان کی اپنی جانب سے ہوتی ہے، یا ہوا پرستی پر قائم ہوتی ہے، بلکہ ان کی نگاہوں کے سامنے احادیث کا ذخیرہ، قرآنی آیات، شریعت کے اصول، فقہ مصالح ومفاسد، دیگر علماء کے اقوال وأفعال، ان کی تو جیہات اور دوسری چیزیں ہوتی ہیں، اس لئے علماء کرام کے اقوال کو تعصب یا کسی اور وجہ سے رد کرنا نا انصافی اور حق پسندی کے منافی امور میں سے ہے، کیونکہ دین کو سمجھنے کا بہترین ذریعہ علماء کرام ہی ہیں۔
کسی عالم نے اگر کسی مسئلہ کو دلیل کی روشنی میں صحیح سمجھا ہے تو اس کا یہ مطلب بالکل بھی نہیں کہ دوسرے علماء کی سمجھ سرے سے باطل ہے، بلکہ یہ دیکھا جائے گا کہ دلیل سے قریب ترین کن کا قول ہے، اور اسی قول پر عمل کیا جائے گا، البتہ کسی عالم کے بیان کردہ مسئلہ کو حرف آخر سمجھ لینا اور اس کے مقابلے میں دوسروں کو القاب سیئہ سے نوازنا کسی بھی طرح دانشمندی کا کام نہیں، کیوں کہ علماء بہرحال انسان ہیں جن کی عصمت کا دعوی کبھی نہیں کیا جا سکتا، مسائل کے بیان کرنے میں ان سے غلطی امکان رہتا ہے، کتاب وسنت اور فہم سلف کی روشنی میں وہ جو صحیح سمجھتے ہیں اس کو بیان کرتے ہیں، لیکن ہو سکتا ہے کہ بعض دلائل یا ان دلائل کے وجوہ استنباط ان پر مخفی رہ جائیں، اور دوسرے علماء ان کے قول کو انہی دلائل کی روشنی میں مرجوح قرار دے دیں جو ان پر مخفی رہ گئی تھیں، تو ایسی صورت میں ہم ان علماء کرام کے اقوال پر عمل کریں گے جنہوں نے دوسرے ادلہ کہ روشنی میں کسی بات کو بیان کیا ہو، کیوں کہ ہم دلیل کی اتباع کے پابند ہیں نہ کہ علماء کی اتباع کے۔
محترم قارئین: روزہ واجب ہو یا نفلی ایک عظیم عبادت ہے، اور ہر عبادت کے کچھ اصول اور ضابطے ہوتے ہیں، چنانچہ کچھ ایام ایسے ہیں جن میں شریعت نے روزہ رکھنے سے منع کیا ہے، جن میں عید الفطر، عید الاضحٰی، ایام تشریق (غیر حاجیوں کیلئے) ، خاص کر صرف جمعہ کا دن، سنیچر کا دن اور ماہ رمضان کی ابتداء سے ایک یا دو دن قبل. البتہ ان ایام ممنوعہ میں سے بعض ایام ایسے ہیں جن کی ممانعت بعض اسباب کی بنیاد پر خاص حالات میں زائل ہو جاتی ہے، اور اس دن روزہ رکھنا جائز ہو جاتا ہے، جیسا کہ آگے تفصیل آئے گی ان شاء اللہ۔
[ اس مضمون میں سنیچر کے دن روزہ رکھنے کے متعلق احکام کی مختصر تفصیل پیش کی جائے گی ان شاء اللہ۔]
بسرة بنت صفوان رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ِ
مذکورہ حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ سنیچر کے دن فرض روزہ کے علاوہ دیگر روزے رکھنا جائز نہیں۔
لیکن کچھ احادیث ایسی ہیں جن سے سنیچر کے دن نفلی روزہ رکھنے کا ثبوت ملتا ہے۔
ب- ابو کریب کہتے ہیں کہ مجھے عبد اللہ بن عباس اور بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس ایک سوال کا جواب پوچھنے کی غرض سے بھیجا، وہ یہ کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم زیادہ تر کس دن روزہ رکھتے تھے؟ ام المؤمنين ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم زیادہ تر سنیچر اور اتوار کو روزہ رکھتے تھے، جب میں نے صحابہ کرام کو جاکر یہ جواب بتایا تو ان لوگوں نے نہیں مانا، اور انہوں نے سمجھا کہ میں نے جواب صحیح سے نہیں سنا، چنانچہ انہوں نے دوبارہ مجھے بھیجا، پھر سے وہی جواب ملا، جب ان کو یقین نہیں ہوا تو وہ لوگ خود ام المؤمنين ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے اور کہا کہ ہم نے ابو کریب کو فلاں فلاں سوال کا جواب پوچھنے کیلئے آپ کے پاس بھیجا تھا، تو اس نے جو آپ کا جواب نقل کیا ہے وہ ایسا ایسا ہے، ام المؤمنين ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ اس نے بالکل سچ کہا ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دیگر ایام کے مقابلے سنیچر اور اتوار کو زیادہ روزہ رکھتے تھے، اور فرماتے کہ یہ دونوں دن یعنی سنیچر اور اتوار مشرکوں کی عید کا دن ہے، اس لئے میں چاہتا ہوں کہ ان کی مخالفت کروں(3)۔
نیز بہت سی ایسی احادیث ہیں جو بسرۃ بنت صفوان رضی اللہ عنہا کی حدیث کے عموم کی تخصیص کرتی ہیں، یا اس کے اطلاق کی تقیید کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر صوم داؤد علیہ الصلاۃ والسلام(4)، یعنی ایک دن روزہ اور ایک دن افطار، صوم داؤد کی ادائیگی پر سنیچر کے دن کا بیچ میں آنا لازمی ہے، لیکن نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس پر تنبیہ نہیں کی کہ صوم داودی میں سنیچر کے دن روزہ نہ رکھا جائے. ماہ رمضان کے روزے کے بعد جس ماہ کے روزے کو سب سے زیادہ افضلیت حاصل ہے وہ ماہ محرم کا روزہ ہے(5)، اور یہاں پر بھی یہ مذکور نہیں کہ ماہ محرم کا روزہ سنیچر کا دن چھوڑ کر رکھا جائے۔
اسی طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم ماہ شعبان کے تقریبا پورے روزے رکھتے تھے(6)، لیکن کسی نے بھی یہ نہیں ذکر کیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم ماہ شعبان میں سنیچر کو چھوڑ کر روزہ رکھا کرتے تھے۔ عاشوراء(7)، عرفہ(8)، ایام بیض(9) وغیرہ کے روزے کی ترغیب نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی امت کو دی ہے، اور یہ روزے سنیچر کو بھی ہو سکتے ہیں اور بسا اوقات ہوتے ہیں، لیکن باوجود اس کے یہ تفصیل بیان نہیں کی کہ سنیچر کو اگر عاشوراء، عرفہ یا ایام بیض وغیرہ آجائے تو روزہ نہیں رکھنا۔
مذکورہ دلائل کی روشنی میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے قولا و فعلا سنیچر کے دن کے روزہ کا ثبوت ملتا ہے, چنانچہ سنیچر کے دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے خود روزہ رکھا ہے جیسا کہ ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی حدیث گذری، نیز جمعہ کے ساتھ سنیچر کے دن روزہ رکھنے اجازت بھی دی ہے جیسا کہ اوپر حدیث گذری۔
نیز بسرۃ بنت صفوان رضی اللہ عنہا کی حدیث میں بروز سنیچر تمام نفلی روزہ رکھنے کی عام نفی ہے، اور اس عموم کی تخصیص ان مذکورہ احادیث سے ہوتی ہے جن میں سنیچر کے دن روزہ رکھنے کا ثبوت ملتا ہے. بعض ممنوع ایام ایسے ہیں کہ اگر وہ ایام ان روزوں سے موافقت کرجائیں جو عادتا رکھے جاتے ہیں تو ایسی صورت میں اس دن کی ممانعت ختم ہو جاتی ہے، جیسے شعبان کے آخری دن کے روزے، یعنی رمضان سے ایک یا دو دن قبل روزہ رکھنا جائز نہیں ہے، لیکن اگر کسی کو سموار اور جمعرات کا روزہ رکھنے کی عادت ہو اور رمضان سے پہلے والا دن یعنی شعبان کا آخری دن سموار اور جمعرات میں سے کوئی ایک ہو تو اس کیلئے روزہ رکھنا جائز ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
اس قاعدہ سے استدلال کئی وجوہ سے صحیح نہیں ہے:
ا- عام قاعدے کی وجہ سے شرعی نصوص کو چھوڑا نہیں جا سکتا، کیوں کہ نصوص کی حیثیت اصل کی ہے اور قواعد انہی نصوص کی روشنی میں مستنبط کئے جاتے ہیں جو کہ فرع کی حیثیت رکھتے ہیں، اور اصل کی موجودگی میں فرع کا اعتبار نہیں ہوتا۔
ب- مذکورہ قاعدہ سے استدلال کی بنا پر ان احادیث کا اہمال لازم آتا ہے جو سنیچر کے دن روزہ رکھنے پر دلالت کرتی ہیں، اور قاعدہ ہے کہ اعمال الدلیلین اولی من اہمالہما۔
ج- مذکورہ قاعدہ کا استعمال اس وقت صحیح ہوگا جب دو دلیلوں کے مابین بظاہر تعارض ہو، اور جمع ممکن نہ ہو، جیسا کہ قاعدہ سے ظاہر ہے، لیکن یہاں پر جمع کی صورت ممکن ہے، اس لئے تعارض کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا جیسا کہ بعض علماء نے ذکر کیا ہے.
دوسری بات یہ کہ: جس طرح ((لا تصوموا یوم السبت..)) والی حدیث سنیچر کے دن تمام روزوں کو ممنوع قرار دے کر صرف فرض روزے کو مستثنیٰ قرار دے رہی ہے، اسی طرح ((لا تصوموا یوم الجمعہ ..)) والی حدیث بھی جمعہ کے دن پورے روزے کو ممنوع قرار دے کر صرف ایک ہی صورت میں جمعہ کے روزے کو جائز قرار دے رہی ہے وہ یہ کہ جمعہ سے ایک دن پہلے یا جمعہ کے بعد سنیچر کو روزہ رکھا جائے تبھی جمعہ کا روزہ درست ہوگا، چنانچہ جس طرح پہلی حدیث سے سنیچر کے دن فرض روزے مستثنیٰ ہوتے ہیں اسی طرح دوسری حدیث سے سنیچر کے دن جمعہ کے ساتھ نفلی روزہ رکھنے کی صورت مستثنیٰ ہوتی ہے۔
اس لئے تمام حدیثوں کو جمع کرنے کے بعد یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ صرف سنیچر کے دن خاص کر نفلی روزہ رکھنا درست نہیں ہے، البتہ سنیچر سے ایک دن پہلے یا بعد میں رکھا جائے تو سنیچر کو روزہ رکھنا جائز ہوگا، اور اسی طرح جن روزے کو عادتا رکھا جاتا ہے جیسے ایام بیض، عاشوراء اور عرفہ وغیرہ کے روزے، اگر اس بیچ میں سنیچر پڑجائے تو کوئی حرج نہیں، جیسا کہ رمضان سے ایک دن قبل روزے کے بارے میں حدیث گذری۔
سنیچر کے دن روزہ رکھنے کے جواز کے قائل احناف، شوافع، حنابلہ، ابن تیمیہ، ابن القیم اور دیگر بہت سارے علماء رحمہم اللہ ہیں، اور معاصرین کی اکثریت بھی اسی کی قائل ہے۔
اس لئے مذکورہ دلائل کی روشنی میں یہ پتہ چلتا ہے کہ سنیچر کے دن عاشوراء کا روزہ رکھنے میں کوئی حرج نہیں۔
واللہ اعلم بالصواب
ابو احمد کلیم الدین یوسف
جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ
Where is Allaah?
Sufyän ath-Thawri (رَحِمَهُ الله) said: