Date & Time:

صلہ رحمی احسان نہیں حق کی ادائیگی ہے

قرآن مقدس میں کئی مقامات پر اللہ تعالیٰ نے حقوق اللہ کے بعد حقوق العباد پر زور دیا ہے ۔ یعنی بندوں کے حقوق بندوں کے اوپر۔اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ حقوق اللہ میں کمی تو آخرت میں اللہ کی مرضی سے معاف بھی ہو سکتا ہے، لیکن حقوق العباد جب تک صاحب حق معاف نہ کرے اللہ تعالیٰ بھی معاف نہیں کرے گا۔ حقوق العبادمیں سب سے پہلے والدین کے حقوق آتے ہیں اس کے بعدرشتہ داروں کے حقوق ۔ رشتہ داروں کے حقوق کی ادائیگی اور ان کے ساتھ حسن سلوک کو صلہ رحمی کہا جاتا ہے۔ جسکی اسلام میں بڑی تاکید کی گئی ہے۔قرآن میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَءَاتِ ذَا ٱلۡقُرۡبَىٰ حَقَّهُۥ وَٱلۡمِسۡكِينَ وَٱبۡنَ ٱلسَّبِيلِ وَلَا تُبَذِّرۡ تَبۡذِيرًا

’’ اور رشتہ داروں کا اور مسکینوں اور مسافروں کا حق ادا کرتے رہو ‘‘ (بنی اسرائیل ۔ ۲۶)۔

اسکے علاوہ سورہ روم ۔ ۳۸ میں بھی یہی بات بیان کی گئی ہے ۔ قرآن کے ان الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ غریب رشتہ داروں ، مساکین اور ضرورت مند مسافروں کی امداد کرنا مال کا وہ حق ہے جو اللہ تعالیٰ نے اصحاب مال کے مالوں میں مذکورہ ضرورت مندوں کا حصّہ مقرر کر رکھا ہے۔ اگر صاحب مال یہ حق ادا نہیں کرے تو اللہ کے یہاں مجرم قرار پائے گا۔ گویا یہ حق کی ادائیگی ہے نہ کہ کسی پر احسان۔ نیز مذکورہ آیت میں رشتہ داروں کا سب سے پہلے ذکر کرنا بھی ان کی اَوَّ لیت کو واضح کرتا ہے۔دور حاضر میں دینی تعلیمات سے نا واقفیت کے سبب عام طور پر مسلمانوںمیں حقوق العباد اور خصوصاً رشتہ داروں کے حقوق کی پامالی عام ہو گئی ہے۔ اولاد پر والدین کے حقوق، والدین پر اولاد کے حقوق اور دیگر رشتہ داروں کے حقوق سے عدم واقفیت کے سبب مسلم معاشرہ اسلامی معا شرہ کے اصولوں سے محروم ہوتا جا رہا ہے جس کے سنگین نتائج سامنے آرہے ہیں۔ بعض حضرات جو دینی شعور رکھتے ہیں اور اچھے دین دار بھی نظر آتے ہیں، وہ بھی صلہ رحمی کے مفہوم سے نا آشناہیں، اسکے فضائل سے بے خبر اور قرآن وحدیث میں جو اس کا درجہ ہے اس سے یکسر غافل ہیں۔ نتیجہ یہ ہو اکہ رشتہ داریاں بھی ایک تجارت بن کر رہ گئیں۔ آج اسی رشتے کو نبھانے کی کوشش کی جاتی ہے جس میں ہمارا دنیاوی مفاد چھپا ہو۔ اگر ہم کو کسی قریبی رشتہ دار سے کو ئی فائدہ نظر نہیں آتا یا کسی طرح کی رنجش ہو جاتی ہے تو پھر صلہ رحمی قطع رحمی میں تبدیل ہو جاتی ہے۔
جو حضرات معمولی سی دل شکنی کے وجہ سے رشتہ داروں سے قطع تعلق کر لیتے ہیں انہیں واقعہ افک سے عبرت لینی چاہئے۔جس میں ام المومنین حضرت عائشہ ؓ پرتہمت لگانے کی ناکام کوشش کی گئی تھی۔ اس واقعہ سے آنحضرت ﷺ اور حضرت عائشہ ؓ اور بہت سے اکابر صحابہ ؓ کو تکلیف کا سامنا کرنا پڑا تھا ۔ آخر اس بارے میں سورہ نور کی۱۰ آیات نازل کی گئیں جس میں اللہ تعالیٰ نے حضرت عائشہ ؓ کی پاکدامنی ظاہر کر دی ۔ اس واقعہ کو شہرت دینے والوں میں مسطح ؓ ایک صحابی بھی تھے جو حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے رشتہ دار تھے اور حضرت ابو بکر ؓ ان کی خبر گیری اور اعانت فرمایا کرتے تھے۔ اس تہمت کو شہرت دینے میں انکی شرکت سے حضرت ابو بکر ؓ کو رنج ہوا جو فطری بات تھی۔ حضرت ابو بکر ؓ نے مسطح ؓ کی اعانت نہ کرنے کی قسم کھائی۔ انکی یہ قسم اگرچہ انسانی فطرت کے مطابق ہی تھی ، لیکن اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں آئی اوراللہ تعالیٰ نے سورہ نور کی ۲۲ ویں آیت نازل فرمائی جو اس طرح ہے۔

وَلَا يَأۡتَلِ أُوْلُواْ ٱلۡفَضۡلِ مِنكُمۡ وَٱلسَّعَةِ أَن يُؤۡتُوٓاْ أُوْلِي ٱلۡقُرۡبَىٰ وَٱلۡمَسَٰكِينَ وَٱلۡمُهَٰجِرِينَ فِي سَبِيلِ ٱللَّهِۖ وَلۡيَعۡفُواْ وَلۡيَصۡفَحُوٓاْۗ أَلَا تُحِبُّونَ أَن يَغۡفِرَ ٱللَّهُ لَكُمۡۚ وَٱللَّهُ غَفُورٞ رَّحِيمٌ

’’تم میں سے جو بزرگی اور کشادگی والے ہیں انہیں اپنے قرابت داروں اور مسکینوں اور مہاجروں کوفی سبیل اللہ دینے سے قسم نہ کھالینی چاہئے ،بلکہ معاف کردینا اور درگذر کر لینا چاہئے۔ کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تعالٰی تمہارے قصور معاف فرمادے؟ اللہ قصوروں کو معاف فرمانے والامہربان ہے ‘‘۔(النور۔۲۲)

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بڑے پیار سے حضرت ابو بکر ؓ کو انکی اس بشری اقدام پر متنبہ فرمایا کہ تم سے بھی غلطیاں ہوتی رہتی ہیں اور تم یہ چاہتے ہو کہ اللہ تعالیٰ تمہاری غلطیاں معاف فرماتا رہے۔ تو پھر تم بھی دوسروں کے ساتھ اسی طرح معافی اور درگذر کا معاملہ کیوں نہیں کرتے؟ کیا تم پسند نہیں کرتے کے اللہ تعالیٰ تمہاری غلطیوں کو معاف فرمادے؟ یہ انداز بیان اتنا مؤثر تھا کہ اسے سنتے ہی ابو بکر صدیق ؓ بے ساختہ پکار اٹھے ’کیوں نہیں اے ہمارے رب ! ہم ضرور چاہتے ہیں کہ تو ہمیں معاف فرمادے‘۔ اسکے بعد انہوں نے اپنی قسم کا کفارہ ادا کرکے حضرت مسطح ؓ کو پھر سے اپنی پرورش میں لے لیا۔
غور کرنے کی بات ہے کہ کتنا سخت اور اہم واقعہ ہے کہ ام المومنین پر بے بنیاد تہمت لگا ئی جائے اور اس کو پھیلانے میں وہ قریبی رشتہ دار ہوں جن کا گزرا وقات بھی انکے والد ہی کی اعانت پر ہو ،کس قدر رنج اور صدمہ ہو ا ہوگا۔ اسکے باوجود قرآن کی آیت نازل ہونے کے بعد جتنا خرچ کرتےتھے اس میں اضافہ بھی فرما دیا۔ اس واقعہ سے صلہ رحمی کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔
حدیث میں آتا ہے کہ غریب رشتہ دارکے ساتھ احسان کرنادوہرے اجر کا باعث ہے۔ ایک صدقہ کا اجر دوسرا صلہ رحمی کا ۔جو شخص اللہ پر اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہے اس کو چاہئے کہ رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرے اور مہمان کی عزت کرے۔ اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے :

’’جو شخص اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اس کے رزق میں برکت ہو، اسکی عمر زیادہ ہو، تو اس کو چاہئے کہ صلہ رحمی کو اپنائے۔ (بخاری و مسلم)

ایک دوسری جگہ آپ ﷺ نے بیا ن فرمایا:

’’لوگو ! اپنا نسب نامہ اور اپنے رشتہ داروں کے نام یاد رکھو تاکہ ان لوگوں کے ساتھ صلہ رحمی کرنے میں آسانی ہو۔ صلہ رحمی سے باہمی محبت زیادہ ہوتی ہے، مال بڑھتا ہے ۔(ترمذی)

کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ بعض رشتہ دار قطع تعلقی کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ اسکے کئی وجوہات ہو سکتے ہیں۔ ایسے حالات میں اس سے میل جول پیدا کرنے کی کوشش کرنا اصلی صلہ رحمی ہے۔ جیسا کے اللہ کے رسول ﷺ کی حدیث ہے :

’’اگر کوئی رشتہ دار تجھ سے قطع تعلقی کرے تو تُو اُس سے میل جو ل پیدا کرنے کی کوشش کر یہی اصلی صلہ رحمی ہے۔ صلہ رحمی یہ نہیں کہ قطع تعلق کرنے والے کے ساتھ تو بھی روٹھ کر بیٹھ جائے"(بخاری)

متذکرہ بالا قرآنی آیات و احادیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کو صلہ رحمی بہت پسند ہے۔ اور صلہ رحمی رشتہ داروں پر احسان نہیں بلکہ حق کی ادائیگی ہے۔ لہذا صلہ رحمی اللہ کو راضی کرنے کا ایک بہترین ذریعہ ہے ۔ اگر ہم اپنے اندر صلہ رحمی کی راو ہموار کرنے کی عادت بنالیں اور ایک دوسرے کی باتوں کو انتہائی خوش اخلاقی کے ساتھ در گذر کرنا سیکھ لیں تو انشاء اللہ ہمارا ٹھکانہ جنت میں ممکن ہو جائے گا۔ اللہ ہم سب کو اسکی توفیق عطا فرمائے (آمین)۔

Where is Allaah?

Allah is above the 'Arsh

"They fear their Lord above them, and they do what they are commanded." [al-Nahl 16:50]
"Do you feel secure that He, Who is over the heaven, will not cause the earth to sink with you?" [al-Mulk 67:16]

Sufyän ath-Thawri (رَحِمَهُ الله) said:

"The example of the scholar is like the example of the doctor,he does not administer the medicine except on the place of the illness.”

(Al-Hilyah 6/368)

Shaykh Sālih al-'Uthaymin said:

"Indeed knowledge is from the best acts of worship and is one of the greatest and most beneficial of it. Hence, you will find Shaytan keeping people away from (seeking) knowledge."
[فتاوى نور على الدرب ۱۲/۲]