وَءَاتِ ذَا ٱلۡقُرۡبَىٰ حَقَّهُۥ وَٱلۡمِسۡكِينَ وَٱبۡنَ ٱلسَّبِيلِ وَلَا تُبَذِّرۡ تَبۡذِيرًا
’’ اور رشتہ داروں کا اور مسکینوں اور مسافروں کا حق ادا کرتے رہو ‘‘ (بنی اسرائیل ۔ ۲۶)۔
اسکے علاوہ سورہ روم ۔ ۳۸ میں بھی یہی بات بیان کی گئی ہے ۔ قرآن کے ان الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ غریب رشتہ داروں ، مساکین اور ضرورت مند مسافروں کی امداد کرنا مال کا وہ حق ہے جو اللہ تعالیٰ نے اصحاب مال کے مالوں میں مذکورہ ضرورت مندوں کا حصّہ مقرر کر رکھا ہے۔ اگر صاحب مال یہ حق ادا نہیں کرے تو اللہ کے یہاں مجرم قرار پائے گا۔ گویا یہ حق کی ادائیگی ہے نہ کہ کسی پر احسان۔ نیز مذکورہ آیت میں رشتہ داروں کا سب سے پہلے ذکر کرنا بھی ان کی اَوَّ لیت کو واضح کرتا ہے۔دور حاضر میں دینی تعلیمات سے نا واقفیت کے سبب عام طور پر مسلمانوںمیں حقوق العباد اور خصوصاً رشتہ داروں کے حقوق کی پامالی عام ہو گئی ہے۔ اولاد پر والدین کے حقوق، والدین پر اولاد کے حقوق اور دیگر رشتہ داروں کے حقوق سے عدم واقفیت کے سبب مسلم معاشرہ اسلامی معا شرہ کے اصولوں سے محروم ہوتا جا رہا ہے جس کے سنگین نتائج سامنے آرہے ہیں۔ بعض حضرات جو دینی شعور رکھتے ہیں اور اچھے دین دار بھی نظر آتے ہیں، وہ بھی صلہ رحمی کے مفہوم سے نا آشناہیں، اسکے فضائل سے بے خبر اور قرآن وحدیث میں جو اس کا درجہ ہے اس سے یکسر غافل ہیں۔ نتیجہ یہ ہو اکہ رشتہ داریاں بھی ایک تجارت بن کر رہ گئیں۔ آج اسی رشتے کو نبھانے کی کوشش کی جاتی ہے جس میں ہمارا دنیاوی مفاد چھپا ہو۔ اگر ہم کو کسی قریبی رشتہ دار سے کو ئی فائدہ نظر نہیں آتا یا کسی طرح کی رنجش ہو جاتی ہے تو پھر صلہ رحمی قطع رحمی میں تبدیل ہو جاتی ہے۔وَلَا يَأۡتَلِ أُوْلُواْ ٱلۡفَضۡلِ مِنكُمۡ وَٱلسَّعَةِ أَن يُؤۡتُوٓاْ أُوْلِي ٱلۡقُرۡبَىٰ وَٱلۡمَسَٰكِينَ وَٱلۡمُهَٰجِرِينَ فِي سَبِيلِ ٱللَّهِۖ وَلۡيَعۡفُواْ وَلۡيَصۡفَحُوٓاْۗ أَلَا تُحِبُّونَ أَن يَغۡفِرَ ٱللَّهُ لَكُمۡۚ وَٱللَّهُ غَفُورٞ رَّحِيمٌ
’’تم میں سے جو بزرگی اور کشادگی والے ہیں انہیں اپنے قرابت داروں اور مسکینوں اور مہاجروں کوفی سبیل اللہ دینے سے قسم نہ کھالینی چاہئے ،بلکہ معاف کردینا اور درگذر کر لینا چاہئے۔ کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تعالٰی تمہارے قصور معاف فرمادے؟ اللہ قصوروں کو معاف فرمانے والامہربان ہے ‘‘۔(النور۔۲۲)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بڑے پیار سے حضرت ابو بکر ؓ کو انکی اس بشری اقدام پر متنبہ فرمایا کہ تم سے بھی غلطیاں ہوتی رہتی ہیں اور تم یہ چاہتے ہو کہ اللہ تعالیٰ تمہاری غلطیاں معاف فرماتا رہے۔ تو پھر تم بھی دوسروں کے ساتھ اسی طرح معافی اور درگذر کا معاملہ کیوں نہیں کرتے؟ کیا تم پسند نہیں کرتے کے اللہ تعالیٰ تمہاری غلطیوں کو معاف فرمادے؟ یہ انداز بیان اتنا مؤثر تھا کہ اسے سنتے ہی ابو بکر صدیق ؓ بے ساختہ پکار اٹھے ’کیوں نہیں اے ہمارے رب ! ہم ضرور چاہتے ہیں کہ تو ہمیں معاف فرمادے‘۔ اسکے بعد انہوں نے اپنی قسم کا کفارہ ادا کرکے حضرت مسطح ؓ کو پھر سے اپنی پرورش میں لے لیا۔’’جو شخص اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اس کے رزق میں برکت ہو، اسکی عمر زیادہ ہو، تو اس کو چاہئے کہ صلہ رحمی کو اپنائے۔ (بخاری و مسلم)
ایک دوسری جگہ آپ ﷺ نے بیا ن فرمایا:’’لوگو ! اپنا نسب نامہ اور اپنے رشتہ داروں کے نام یاد رکھو تاکہ ان لوگوں کے ساتھ صلہ رحمی کرنے میں آسانی ہو۔ صلہ رحمی سے باہمی محبت زیادہ ہوتی ہے، مال بڑھتا ہے ۔(ترمذی)
کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ بعض رشتہ دار قطع تعلقی کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ اسکے کئی وجوہات ہو سکتے ہیں۔ ایسے حالات میں اس سے میل جول پیدا کرنے کی کوشش کرنا اصلی صلہ رحمی ہے۔ جیسا کے اللہ کے رسول ﷺ کی حدیث ہے :’’اگر کوئی رشتہ دار تجھ سے قطع تعلقی کرے تو تُو اُس سے میل جو ل پیدا کرنے کی کوشش کر یہی اصلی صلہ رحمی ہے۔ صلہ رحمی یہ نہیں کہ قطع تعلق کرنے والے کے ساتھ تو بھی روٹھ کر بیٹھ جائے"(بخاری)
Where is Allaah?
Sufyän ath-Thawri (رَحِمَهُ الله) said: