Date & Time:

دفاع سنت

اعتراض: جب احادیث کی کتابیں موجود نہیں تھیں تب لوگ اپنے مسائل کیسے حل کرتے تھے اور کن کی طرف رجوع کرتے تھے؟ اس قسم کا اعتراض کرنے والے یہ بتلانا چاہتے ہیں کہ احادیث کی کتابیں پہلے موجود نہیں تھیں اس کا مطلب احادیث بھی موجود نہیں تھیں، محدثین نے ان احادیث کو خود سے لکھ کر نبی کی طرف منسوب کر دیا!!!

اس طرح یہ لوگ بالکلیہ سنت کا انکار کرنا چاہتے ہیں تاکہ وہ اپنے باطل افکار و نظریات کی کھل کر نشر و اشاعت کر سکیں اور کوئی بھی حدیث ان کیلئے رکاوٹ نہ بنے.

مذکورہ اعتراض کا ایک الزامی جواب یہ دیا جا سکتا ہے کہ جب قرآن مجید مصحف یعنی کتاب کی شکل میں جمع نہیں کیا گیا تھا تو لوگ کس کتاب کی طرف رجوع کرتے تھے؟

جس طرح احادیث رسول پر اس قسم کا اعتراض کرکے نا قابل اعتبار بتانے کی کوشش کی جاتی ہے کیا اسی طرح (نعوذ باللہ) وہ لوگ اسی قسم کے اعترض کی بنیاد پر قرآن مجید کو بھی ناقابل اعتبار گردانیں گے؟

محترم قارئین: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مسائل دریافت کرنے کا طریقۂ کار سوال و جواب تھا، سائل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال پوچھتا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسے جواب دیتے، یہی طریقہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے زمانے میں بھی رہا، لوگ اپنے اپنے مسائل علمائے صحابہ کرام کے سامنے رکھتے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین انہیں قرآن اور احادیث صحیحہ کی روشنی میں جواب دیتے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام جن چیزوں کی روشنی میں جواب دیا کرتے تھے انہی چیزوں کو محدثین نے کتابوں میں لکھ لیا، یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جو احکام، اقوال و افعال اور تقریرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے سینے میں محفوظ تھے محدثین کرام نے اسے کتابوں میں محفوظ کر لیا.

جس طرح نبی کے زمانے قرآن مجید الگ الگ چیزوں میں لکھا ہوا تھا، اور بعض سورتیں اور آیات صحابہ کرام کے سینوں میں محفوظ تھیں اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث بعض صحابہ کرام نے لکھ کر اپنے پاس رکھ لی تھی، اور بعض احادیث بعض صحابہ کرام کے سینوں میں محفوظ تھیں، اور جس طرح صحابہ کرام نے پورے قرآن مجید کو ایک جگہ جمع کرکے لکھنا مناسب سمجھا تاکہ اس کی حفاظت ممکن ہو سکے اسی طرح بعض صحابہ کرام اور تابعین و تبع تابعین نے احادیث رسول کو کتابوں میں لکھنا ہی اس کی حفاظت کا ذریعہ سمجھا، اور جس طرح صحابہ کرام کو قرآن نہ لکھنے کی صورت میں اس کے ضائع ہونے کا خدشہ لگا اسی طرح بعض تابعین اور تبع تابعین کو بھی احادیث کو باضابطہ نہ لکھنے کی صورت میں ان کے ضائع ہوجانے کا ڈر ستانے لگا، جن اسباب کی بنیاد پر قرآن مجید کی تدوین کی گئی انہی اسباب کی بنیاد پر تدوین حدیث بھی عمل میں آئی، چنانچہ جس طرح قرآن مجید آج تک محفوظ ہے اسی طرح احادیث رسول بھی آج تک محفوظ ہیں، کیونکہ دونوں کی حفاظت کیلئے صحابہ کرام نے جو طریقہ اختیار کیا وہ ایک ہی تھا، اس لئے یہ ناممکن ہے کہ ایک ضائع ہو جائے اور دوسرا محفوظ رہے. اگر کوئی منکر سنت یہ اعتراض کرے کہ امام بخاری اور امام مسلم رحمہما اللہ وغیرہما نے جو احادیث اپنی اپنی کتاب میں لکھی ہیں وہی احادیث نبی کے زمانے میں بھی موجود تھیں اس کی کیا دلیل ہے؟

اس کا ایک الزامی جواب تو یہ ہے کہ جو قرآن مجید صحابہ کرام نے مصحف کی شکل میں جمع کیا تھا وہی قرآن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تھا اس کی کیا دلیل ہے؟

اگر یہ کہا جائے کہ صحابہ کرام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سن کر قرآن مجید یاد کیا کرتے تھے اور لکھ لیا کرتے تھے تو یہی بات حدیث کے بارے میں بھی کہی جائے گی کہ صحابہ کرام نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال کو ان سے سن کر یاد کر لیا کرتے تھے، اور بعض صحابہ کرام اسے لکھا بھی کرتے تھے، امیر المؤمنین علی، عبد اللہ بن عمرو بن العاص، أبو موسى اشعری، انس بن مالک، جابر بن عبد اللہ اور سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہم اجمعین نبی کے حکم مطابق احادیث لکھا کرتے تھے اور کتاب کی شکل میں ان کے پاس موجود تھیں. قرآن اور حدیث دونوں کے یاد کرنے اور لکھنے کا سلسلہ عہد نبوی سے ہی شروع ہوا، اور کسی بھی علمی سرمایہ کو محفوظ رکھنے کا یہی دو طریقہ تھا، یا تو اسے یاد کر لیا جائے، یا تو اسے لکھ لیا جائے، اور کتاب و سنت کی حفاظت کیلئے سلف صالحین نے بیک وقت ان دونوں طریقوں کو اختیار کیا، یہی وجہ ہے کہ آج تک قرآن اور حدیث دونوں ویسے ہی محفوظ ہے جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تھی. قارئین کرام: مزید اس بات کو قرآن کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کریں، اللہ رب العالمین نے فرمایا:

﴿فَإِن تَنازَعتُم في شَيءٍ فَرُدّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسولِ ﴾ [النساء: ٥٩].
اگر کسی مسئلہ میں تنازع ہو جائے تو اسے اللہ اور اس کے رسول پر پیش کرو.

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ صحابہ کرام اپنے مسائل کو اللہ پر کیسے پیش کرتے تھے؟

اس کا جواب یہی ہوگا کہ وہ اپنے مسائل اللہ رب العالمین کی کتاب پر پیش کرتے تھے.

اب دوسرا سوال یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صحابہ کرام متنازع فیہ مسائل کو نبی پر کیسے پیش کرتے تھے؟

یقیناً اس کا جواب یہی ہوگا کہ صحابہ کرام اپنے متنازع فیہ مسائل نبی کی احادیث پر پیش کیا کرتے تھے.

مذکورہ آیت سے معلوم ہوا کہ نبی کی تمام صحیح احادیث قیامت تک محفوظ رہیں گی، کیونکہ مسلمانوں کو قیامت تک متنازع فیہ مسائل کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر پیش کرنے کی ضرورت پڑتی رہے گی، اور یہ اسی وقت ممکن ہو سکتا ہے جب نبی کی تمام احادیث محفوظ ہوں.

خلاصہ کلام یہ کہ جب کتب ستہ (جسے صحاح ستہ بھی کہا جاتا ہے) موجود نہیں تھی پھر لوگ انہی احادیث کی طرف رجوع کرتے تھے جو کتب ستہ وغیرہ میں موجود ہیں کیونکہ کتب ستہ سے پہلے وہ احادیث صحابہ کرام، تابعین عظام اور تبع تابعین کے سینوں اور ان کی خاص کتابوں میں موجود تھیں جنہیں صحائف سے تعبیر کیا جاتا ہے.

واللہ اعلم بالصواب
ابو احمد کلیم الدین یوسف
جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ

Where is Allaah?

Allah is above the 'Arsh

"They fear their Lord above them, and they do what they are commanded." [al-Nahl 16:50]
"Do you feel secure that He, Who is over the heaven, will not cause the earth to sink with you?" [al-Mulk 67:16]

Sufyän ath-Thawri (رَحِمَهُ الله) said:

"The example of the scholar is like the example of the doctor,he does not administer the medicine except on the place of the illness.”

(Al-Hilyah 6/368)

Shaykh Sālih al-'Uthaymin said:

"Indeed knowledge is from the best acts of worship and is one of the greatest and most beneficial of it. Hence, you will find Shaytan keeping people away from (seeking) knowledge."
[فتاوى نور على الدرب ۱۲/۲]